سپریم کورٹ اپنی بقاء کو لے کر آئے تھے سترہ سال گزرنے کے باوجود شنوائی نہیں ہوئی اور اب بھی ہمیں محسوس ہو رہا کہ پھر سے لٹکایا جا رہا ڈاکٹر عباس

اسلام آباد(ابرار حسین استوری) سپریم کورٹ آف پاکستان میں گلگت بلتستان کے آئینی اور بنیادی حقوق کیس کی سماعت کے بعد درخواست گزار ڈاکٹر عباس سمیت دیگر نے سپریم کورٹ کے باہر نیشنل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے، گلگت بلتستان کے عوام متنازعہ کشمیر کے فریق ہونے کے ناطے 1948 میں یو این ریزولیوشن میں کہا گیا تھا کہ 6ہفتے کے اندر لوکل اتھارٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے. مگر 72 سال گزرنے کے باوجود لوکل اتھارٹیز کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا.ہم حکومت پاکستان کی سپریم کورٹ میں اپنی اس بقاء کو لے کر آئے اور سترہ سال گزرنے کے باوجود شنوائی نہیں ہوئی اور اب ہوئی ہے تو ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ پھر سے لٹکایا جا رہا ہے کوئی نئیے پیکج کے تحت کوئی نیا آرڈر دیا جائے گا. جو ہمارے بنیادی حقوق کے خلاف تصور کیا جائے گا.ڈاکٹر عباس نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کیس کلئیر اور واضع ہے یا تو یو این او ریزولیوشن کی بنیاد پر ہمیں لوکل اتھارٹیز دی جائے یا پھر آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ جو ایک ہی تنازعے کے دو فریق ہیں. ایک فریق کو آپ کئی سالوں سے ٹرکھا رہے ہیں تو دوسرے فریق کو ایک آئینی سیٹ اپ اور آئینی حقوق دیا ہے. ایکٹ کے زریعے آئین دیا ہے انکا باقاعدہ ریاستی سیٹ اپ ہے جبکہ ہمیں ایل ایف او اور آرڈر کے ذریعے ٹرکھا رہے ہیں.انہوں نے مزید کہا کہ اب ہم سمجھتے ہیں ہمارا کیس جو انٹرنیشنلائز اور اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ ہے اسکو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے قانون کی بنیاد پر لوکل اتھارٹیز دیں. جسمیں فارن افئیرز، کرنسی اور دفاع کے علاوہ تمام پاورز کو لوکل اتھارٹیز کو دیں. لوکل اسمبلی کو قانون سازی اور اس میں ترمیم کا اختیار دیں. اگر ایسا نہیں تو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دے دیں. ہمیں اور قسم قسم کے پیکجز اور آرڈرز سے ٹرکھایا جا رہا ہے اسے ہم بلکل نہیں مانتے اور مسترد کرتے ہیں.